جون ایلیا

جون ایلیا کے منتخب اشعار

Jaun Eliya

 آئینوں کو زنگ لگا

اب میں کیسا لگتا ہوں


آپ اپنی گلی کے سائل کو
کم سے کم پر سوال تو رکھئے

آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا

آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد رکھنا نہ تم کہا میرا

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام و در کسی جان جہاں کے تھے

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا

اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں

اپنے سبھی گلے بجا پر ہے یہی کہ دل ربا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا نہیں

اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے

اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں

اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر
درمیاں کوئی سلسلہ ہی نہیں

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں

ن لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
 اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے

اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں

اک عجب حال ہے کہ اب اس کو
 یاد کرنا بھی بے وفائی ہے

ایک قتالہ چاہئے ہم کو
ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی

اے شخص میں تیری جستجو سے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں

اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

بھول جانا نہیں گناہ اسے
یاد کرنا اسے ثواب نہیں

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے
گناہ ترک بادہ کر لیا کیا

پوچھ نہ وصل کا حساب حال ہے اب بہت خراب
رشتۂ جسم و جاں کے بیچ جسم حرام ہو گیا

Jaun Eliya best poetry collection
Jun Elia urdu poetry

<script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<script>
     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({
          google_ad_client: "ca-pub-8016069881926192",
          enable_page_level_ads: true
     });
</script>

تبصرے