اشاعتیں

جنوری, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Jub tu meri dharkan meri bato se aenya tha

تصویر

Tere faraq k lamhe shumar karte hain

تصویر

Teri jabeen pe likha tha k tu bhula dega

تصویر

Us k Hatho se khoshbo e hina aati hogi

تصویر

Dheeray Se Sarakti Hai Raat Us Ke Aanchal Ki Tarah

Dheeray Se Sarakti Hai Raat Us Ke Aanchal Ki Tarah Poet: Wasi Shah Dheeray Se Sarakti Hai Raat Us Ke Aanchal Ki Tarah Uska Chehra Nazar Aata Hai Jheel Main Kanwal Ki Tarah Baad Muddat Usko Daikha To Jism-o-Jaan Ko Yun Laga Pyasi Zameen Pe Jaisay Koi Baras Gaya Baadal Ki Tarah Roz Kehta Hai Seenay Pe Sar Rakh K Raat Bhar Jaga’uon Ga, Sar-e-Sham Hee Mujhe Aaj Phir Sula Gaya Wo Kal Ki Tarah, Mere Hee Dil Ka Makeen Nikla Wo Shakhs “Wasi” Aur Mein Shehar Bhar Me Dhundta Raha Usy Kisi Pagal Ki Tarah

کسی کی آنکھ سے سپنے چُرا کر کچھ نہیں ملتا - وصی شاہ

تصویر
Kisi Ki Aankh Se Sapne Chura Kar Kuch Nahi Milta کسی کی آنکھ سے سپنے چُرا کر کچھ نہیں ملتا منڈیروں سے چراغوں کو بُجھا کر کچھ نہیں ملتا ہماری سوچ کی پرواز کو روکے نہیں کوئی نئے افلاک پر پہرے بٹھا کر کچھ نہیں ملتا کوئی اک آدھ سپنا ہو تو پھر اچھا بھی لگتا ہے ہزاروں خواب آنکھوں میں سجا کر کچھ نہیں ملتا سکوں اُن کو نہیں ملتا کبھی پردیس جا کر بھی جنہیں اپنے وطن سے دل لگا کر کچھ نہیں ملتا اُسے کہنا کہ پلکوں پر نہ ٹانکے خواب کی جھالر سمندر کے کنارے گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا اچھا ہے کہ آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں کبھی بھی دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا نجانے کون سے جذبے کی یوں تسکین کرتا ہوں بظاہر تو تمہارے خط جلا کر کچھ نہیں ملتا فقط تم سے ہی کرتا ہوں میں ساری راز کی باتیں ہر اک کو داستانِ دل سنا کر کچھ نہیں ملتا عمل کی سوکھتی رگ میں ذرا سا خون شامل کر مرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا اسے میں پیار کرتا ہوں تو مجھ کو چین آتا ہے وہ کہتا ہے اُسے مجھ کو ستا کر کچھ نہیں ملتا مجھے اکثر ستاروں سے یہی آواز آتی ہے کسی کے ہجر میں نیند

Tum meri kon ho

تصویر

Hum jo bichhre tu batao bhala kya hoga

تصویر

Aaeyna jhot bolta hai

تصویر

Aksar pagal hojate hain

تصویر

Dil main afsos aankho main nami rehti hai

تصویر

Hazaron Dukh Paren Sehnaa

تصویر
Hazaron Dukh Paren Sehnaa Hazaron Dukh Paren Sehna Mohabbat Mar Nahi Sakti Hai Tum Se Bus Yahe Kehna Mohabbat Mar Nahi Sakti Tera Har Bar Mere Khat Ko Parhna Aur Ro Dena Mera Har Bar Likh Dena Mohabbat Mar Nahi Sakti Kiya Tha Hum Ne Campus Ki Nadi Par Ek Haseen Wada Bhaly Hum Ko Parhy Marna Mohabbat Mar Nahi Sakti Jahan Mein Jab Talak Panchi Chahaktey Urhtey Phirty Hain Hai Jab Tak Phool Ka Khilna Mohabbat Mar Nahi Sakti Purane Ah-Had Ko Jab Zinda Karne Ka Khayal Aey Mujhe Bus Itna Likh Dena Mohabbat Mar Nahi Sakti Wo Tera Hijar Ki Shab Main Fone Rakhany Se Zara Pehley Bahat Rotey Huwe Kehna Mohabbat Mar Nahi Sakti Agar Hum Has-Raton Ki Qabar Mein He Dafan Ho Jaen To Yeh Qatbon Pe Likh Dena Mohabbat Mar Nahi Sakti Purane Rabton Ko Phir Nae Waade Ki Khawahish Hai Zara Aik Baar To Kehna Mohabbat Mar Nahi Sakti Gae Lamhat Fursat Ke Kahan Se Dhoond Kar Laon Wo Pehron Hath Par Likhna Mohabbat Mar Nahi Saktia Poet: Wasi Sha

اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں

تصویر
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا تھا میں ڈھونڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں اسے دلاسے تو دے رہا ہوں مگر یہ سچ ہے کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہے تسلیوں میں تم اپنی پوروں سے جانے کیا لکھ گئے تھے جاناں چراغ روشن ہیں اب بھی میری ہتھیلیوں میں جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں مجھے یقیں ہے وہ تھام لے گا بھرم رکھے گا یہ مان ہے تو دیے جلائے ہیں آندھیوں میں ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں می ں وصی شاہ 

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں

تصویر
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے وصی شاہ 

تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے

تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤگے کسی معذور کو دیکھوگے تو یاد آؤں گا اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا وصی شاہ 

کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر

کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر مدتوں اس کی خواہش سے چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر وہ جو نکلا نہیں تو بھٹکتے رہے ہیں مسافر کئی اور لٹتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر اس کو دعویٰ بہت میٹھے پن کا وصیؔ چاندنی سے کہو اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر Wasi Shah Poetry

تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا

تصویر
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے Poet Wasi Shah

ڈ سنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے

تصویر

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

تصویر

Rothi hwi zindagi ko manana tu aata hai

تصویر
Rothi hwi zindagi ko manana tu aata hai

Yad karte hain qasmen khate hain

تصویر

دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا

تصویر
Perveen Shakir دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا لاکھ پردوں میں چھپا کوئی سنورتا ہی رہا روشنی کم نہ ہوئی وقت کے طوفانوں میں دل کے دریا میں کوئی چاند اترتا ہی رہا راستے بھر کوئی آہٹ تھی کہ آتی ہی رہی کوئی سایہ مرے بازو سے گزرتا ہی رہا مٹ گیا پر تری بانہوں نے سمیٹا نہ مجھے شہر در شہر میں گلیوں میں بکھرتا ہی رہا لمحہ لمحہ رہے آنکھوں میں اندھیرے لیکن کوئی سورج مرے سینے میں ابھرتا ہی رہا

میں اپنی دوستی کو شہر میں رسواء نہیں کرتی

تصویر
Perveen Shakir میں اپنی دوستی کو شہر میں رسواء نہیں کرتی  محبت میں بھی کرتی ہوں مگر چرچا نہیں کرتی جو مجھ سے ملنے آ جائے میں اس کی دِل سے خادم ہوں جو اٹھ کے جانا چاھے میں اسے روکا نہیں کرتی جسے میں چھوڑ دیتی ہوں اسے پِھر بھول جاتی بوں پِھر اس ہستی کی جانب میں کبھی دیکھا نبیں کرتی تیرا اصرار سر آنكھوں پہ کے تم کو بھول جاؤں میں میں کوشش کر کے دیکھوں گی مگر وعدہ نہیں کرتی Perveen Shakir

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی

تصویر
Perveen Shakir کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی  دِل کو خوشی كے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی  سب سے نظر بچہ كے وہ مجھ کو کچھ ایسا دیکھتا  اک دافع تو رک گئی گردش ماہ سال بھی  دِل تو چمک سکے گا کیا پِھر بھی تراش كے دیکھ لیں  شیشہ گراں شہر كے ہاتھ کا یہ کمال بھی  اس کو نا پا سکے تھے جب دِل کا عجیب حال تھا  اب جو پلٹ كے دیکھیے بات ہی کچھ مُحال تھی  میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پِھر  ہاتھ دعا سے یوں گرے بھول گیا سوال بھی  اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں  اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی  شام کی ناسمجھ ہوا پوچھ رہی ہے ایک پتہ  موج ہوا کیوں یار ، کر کچھ تو میرا خیال بھی Kuch Toh Hawa Bhi Sard Thi, Kuch Tha Tera Khayal Bhi Dil Ko Khushi Ke Sath Sath Hota Raha Malal Bhi Baat Woh Aadhi Raat Ki, Raat Woh Pore Chand Ki Chand Bhi Woh Aen Cheet Ka, Us Per Tera Jamal Bhi Sab Se Nazar Bacha Ke Woh Mujh Ko Kuch Aesy Dekhta Ek Dafa Toh Ruk Gai Gardish Mah-Wa-Sal Bhi Dil Tu Chamak Sake Ga Kya, Pher Bhi Tursh Ke Dekh Le

ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے

تصویر
Perveen Shakir ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولیے بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے پلکوں پہ کچی نیندوں کا رس پھیلتا ہو جب ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولیے تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے خوش بو کہیں نہ جائے پہ اصرار ہے بہت اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زلف کھولیے تصویر جب نئی ہے نیا کینوس بھی ہے پھر طشتری میں رنگ پرانے نہ گھولی ے

وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا Perveen Shakir

تصویر
Perveen Shakir وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا Perveen Shakir Ghazal