فیض احمد فیض

فیض احمد فیض کی منتخب غزلیں



1

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

2

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے

3

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں

4

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم
کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیضؔ لٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی




تبصرے