میر تقی میر

اردو کے کلاسک شاعر میر تقی میر کے مشہور اشعار

Mir Taqi Mir
*
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا
 *
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
 *
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
 *
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
 *
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
 *
بزم عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حباب بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
 *
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
*
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
*
بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
 *
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
 *
دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہو گیا
 *
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
*
دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
*
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
 *
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
*
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
 *
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
*
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا
 *
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
 *
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
 *
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
*
تجھی پر کچھ اے بت نہیں منحصر
جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا
 *
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
*
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا
 *
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
 *
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
 *
دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا
 *
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
*
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
 *
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
 *
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
 *
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
*
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
 *
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
*
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
 *
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
*
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
*
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
*
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
 *
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
 *
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
*
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
 *
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
*
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
*
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
 *
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
 *
سخت کافر تھاجن نے پہلے میرؔ
مذہب عشق اختیار کیا
*
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
 *
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
 *
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
*
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
*
دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا
 *
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
*
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
*
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
*
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
*
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
*
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
*
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
*
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
 *
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
*
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
*
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
*
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
*
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
*
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
 *
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
*
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
*
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
*
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
*
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
*
سخت کافر تھاجن نے پہلے میرؔ
مذہب عشق اختیار کیا
*
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
*
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
*
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
*
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
*
دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا
 *
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
*
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
*
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
*
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

*
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
*
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
*
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
*
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
 *
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
*
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
*
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
*
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
*
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
*
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
*
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
*
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
*
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
*
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
*
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
*
سخت کافر تھاجن نے پہلے میرؔ
مذہب عشق اختیار کیا
*
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
*
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
 *
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
*
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
*
دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا
*
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
*
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
*
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
*
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
*
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
*
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
*
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
*
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
 *
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
*
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
*
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
*
منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
*
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
*
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
*
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
*
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
*
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
*
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

Mir Taqi Mir, Classic Poetry Collection

Mir Taqi Mir k mashoor ashar