واصف علی واصفؒ کی آٹھ منتخب غزلیں






1
ملا ہے جو مقدر میں رقم تھا
زہے قسمت مرے حصے میں غم تھا
جبین شوق نے یہ راز کھولا
مرا کعبہ ترا نقش قدم تھا
مری کوتہ نگاہی تھی وگرنہ
ستم ان کا تو اک حسن‌ کرم تھا
جسے تو رائیگاں سمجھا تھا واصفؔ
وہ آنسو افتخار جام جم تھا

2
نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں
مری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں
بہت بدلے مرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں
وجود غیر ہو کیسے گوارا
تری راہوں میں بے سایہ گیا ہوں
نہ جانے کون سی منزل ہے واصفؔ
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں

3
سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے
جمال گل کے پردے میں شرر ہے ہم نہ کہتے تھے
لبوں کی تشنگی کو ضبط کا اک جام کافی ہے
چھلکتا جام زہر کارگر ہے ہم نہ کہتے تھے
زمانہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے جس کو اک زمانے سے
محبت کی وہ اک پہلی نظر ہے ہم نہ کہتے تھے
قیامت آ گئی لیکن وہ آئے ہیں نہ آئیں گے
شب فرقت کی کب کوئی سحر ہے ہم نہ کہتے تھے
غم جاناں غم ایام کے سانچے میں ڈھلتا ہے
کہ اک غم دوسرے کا چارہ گر ہے ہم نہ کہتے تھے
تڑپتی کوندتی تھی برق لہراتی مچلتی تھی
ہمارے چار تنکوں پر نظر ہے ہم نہ کہتے تھے
غبار راہ میں کھو جائے گا یہ کارواں آخر
کہ رہزن کارواں کا راہبر ہے ہم نہ کہتے تھے
نشان منزل مقصود سے آگاہ تھے واصفؔ
فریب آگہی سے کب مفر ہے ہم نہ کہتے تھے

4
چاندنی رات میں کھلے چہرے
صبح ہوتے ہی چھپ گئے چہرے
میں نگاہوں کو کس طرح بدلوں
آپ نے تو بدل لیے چہرے
غور سے دیکھ آبگینوں کو
کل کہاں ہوں گے آج کے چہرے
کھا رہے ہیں درخت کا سایہ
ٹہنیوں سے لگے ہوئے چہرے
اس کا چہرہ کب اس کا اپنا تھا
جس کے چہرے پر مر مٹے چہرے
زندگی میں کبھی نہیں ملتے
کاغذوں پر سجے ہوئے چہرے
آ گئے کھل کے سامنے واصفؔ
آستیں میں چھپے ہوئے چہرے

5
کون کسی کا اس دنیا میں کس نے پیت نبھائی
اپنی ذات میں گم ہیں سارے کیا پربت کیا رائی
کالا سورج دیکھ کے کالی رات نے لی انگڑائی
اپنی راہ میں حائل ہو گئی آنکھوں کی بینائی
پتے ٹوٹ گئے ڈالی سے یہ کیسی رت آئی
مالا کے منکے بکھرے ہیں دے گئے یار جدائی
اک چہرے میں لاکھوں چہرے ہر چہرہ ہرجائی
جھوٹا میلہ انت اکیلا جھوٹی پیت لگائی
اک ذرے میں صحراؤں کی وسعت آن سمائی
اک قطرے میں ڈوب کے رہ گئی ساگر کی گہرائی
تجھ بن ساجن میری ہستی میرے کام نہ آئی
بات بنانے سے کیا بنتی تو نے بات بنائی
سانس کی آری کاٹ رہی ہے صدیوں کی پہنائی
ہستی کے بہروپ میں واصفؔ موت سندیسہ لائی

6
ہر انسان یہی کہتا ہے دیکھو تو اب کیا ہوتا ہے
رستے میں دیوار کھڑی ہے اتنا تو سب کو دکھتا ہے
چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
میری سندرتا کے گہنے چھین کے وہ کہتا ہے مجھ سے
وہ انسان بہت اچھا ہے جو ہر حال میں خوش رہتا ہے
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
میں تقدیر زمانے بھر کی ہر انسان مقدر تیرا
جرم کسی کا چلتے چلتے میرے ہی سر آ پڑتا ہے
کتنے جلووں سے گزرا ہوں کتنے منظر دیکھے میں نے
اب بھی آنکھ سے اوجھل ہے وہ جو میرے دل میں رہتا ہے
دھوپ اور چھاؤں سے بنتا ہے ہستی کا افسانہ واصفؔ
بڑھ جاتے ہیں وہم کے سائے عزم کا سورج جب ڈھلتا ہے

7
عجب اعجاز ہے تیری نظر کا
کہ ہم بھولے ہیں رستہ اپنے گھر کا
سحر آئی تو یاد آئے وہ تارے
پتہ جن سے ملا ہم کو سحر کا
چلے ہو چھوڑ کر پہلے قدم پر
چلے تھے ساتھ دینے عمر بھر کا
بہاریں آ گئیں جب آپ آئے
دعاؤں نے بھی منہ دیکھا اثر کا
حقیقت کیا فریب آگہی ہے
نظر بھی ایک دھوکا ہے نظر کا
عدم سے بھی پرے تھی اپنی منزل
سفر انجام تھا اپنے سفر کا
مری آنکھیں ہوئیں نمناک واصفؔ
خیال آیا کسی کی چشم تر کا

8
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا ہے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت
پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فن کار کی صورت
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا راز تمنا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت
دل ہاتھ پر رکھا ہے کوئی ہے جو خریدے
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت
صورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت
واصفؔ کو سردار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

واصف علی واصفؒ کی آٹھ منتخب غزلیں

تبصرے