آئینہ پرخوبصورت شاعری
آئینہ دیکھ اپنا
سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ
دینے پہ کتنا غرور تھا
مرزا غالب
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں
کہ تجھ سا کہیں جسے
مرزا غالب
آئینے میں وہ دیکھ
رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو
شرما کے رہ گئے
حسرتؔ موہانی
آئنہ دیکھ کے
فرماتے ہیں
کس غضب کی ہے
جوانی میری
امداد امام اثرؔ
آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے
مرے مرنے والے
رومان حسن
آئینے سے نظر چراتے ہیں
جب سے اپنا جواب
دیکھا ہے
امیر قزلباش
بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ
نہ دیکھی راہ جو
خلوت سے انجمن کی طرف
نظم طبا طبائی
چاہے سونے کے فریم
میں جڑ دو
آئنہ جھوٹ بولتا
ہی نہیں
دیکھئے گا سنبھل
کر آئینہ
سامنا آج ہے مقابل
کا
ریاضؔ خیرآبادی
دیکھنا اچھا نہیں
زانو پہ رکھ کر آئنہ
دونوں نازک ہیں نہ
رکھیو آئنے پر آئنہ
داغؔ دہلوی
دیکھو قلعی کھلے
گی صاف اس کی
آئینہ ان کے منہ
چڑھا ہے آج
سخی لکھنوی
ہم نے دیکھا ہے
روبرو ان کے
آئینہ آئینہ نہیں
ہوتا
ابن مفتی
