پاکستان کی سیاسی تاریخ قسط - 2

Political History of Pakistan 2

politcal history of pakistan 2



 پاکستان کی سیاسی تاریخ قسط  - 2

ادھر قائد اعظم جہان فانی سے رخصت ہوئے اور حکومتی ایوانوں میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ قائد اعظم کے بعد اس سارے گرداب کو سنبھالنے کی اگر کسی میں صلاحیت تھی تو وہ قائد ملت لیاقت علی خان تھے۔ قائد کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان پاکستان کے مختار کل ہوگئے اور پاکستان کی قسمت کے اہم ترین فیصلے کرنے لگے۔

لیاقت علی خان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئین مرتب کرنا اور پاکستان کی تاریخ کا ایک اور اہم ترین فیصلہ، روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں کسی ایک کا اتحادی بننا یا بھارت کی طرح غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ تھا۔

لیاقت علی خان کو روس کے سربراہ جوزف اسٹالن اور امریکی صدر ہیری ٹرومین نے دورے کا دعوت نامہ بھیج رکھا تھا۔

لیاقت علی خان نے ماسکو کے بجائے واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا۔ واشنگٹن میں ان کا پرتپاک استقبال ہوا۔(خطے کی سپر پاور کو چھوڑ کر سات سمندر پار امریکہ کے انتخاب کو بین الاقوامی امور کے ماہرین نے ایک غلط فیصلے سے تعبیر کیا ہے) اس دورے سے روس اور پاکستان کے تعلقات بگڑ گئے۔ امریکہ سے تعلق کے بعد پاکستان عالمی سیاست اور سرد جنگ کی چکی میں پسنے لگا۔ ایک کمزور ریاست کے لیے خطے میں موجود عالمی طاقت روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بننے کا بوجھ اٹھانا تقریباً ناممکن تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو شدید نقصان پہنچا اور پاکستان آزادنہ خارجہ پالیسی کے راستے سے بھٹک گیا اور عالمی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے لگا۔

لیاقت علی خان کے اقتدار کا آخری سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ 1951 میں میجر جنرل اکبر خان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ یہ سازش ناکام ہوئی اور اس سازش کے سبھی کردار گرفتار کر لیئے گئے۔ یہ واقع فوجی مداخلت کی پہلی کوشش تھی جو ناکام ہوئی۔

اکتوبر 1951 لیاقت علی خان کمپنی باغ راولپنڈی میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ عام سے خطاب کرنے اسٹیج پر پہنچے۔ جیسے ہی تقریر شروع کی "برادران ملت" جلسے کے شرکاء میں کھڑے سید اکبر نے گولی چلا دی، گولی سینے میں لگی اور پاکستان کا پہلا وزیراعظم ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ گولی چلانے والا شخص جس کو لوگوں نے پکڑ لیا تھا۔ اسے پولیس نے موقع پر ہی قتل کر دیا۔

لیاقت علی خان قتل کیس کی تفتیش انتہائی غیر ذمے دارانہ انداز میں کی گئی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس کی فائل پیش کرنے کا حکم دیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے حیرت انگیز جواب دیا کہ مائی لارڈ لیاقت خان قتل کیس کی فائل گم ہو چکی۔ یوں اس راز سے کبھی پردہ نہ اٹھا کہ اس قتل کے محرکات کیا تھے لیکن اس دور کے اخبارات نے تسلسل کے ساتھ یہ خبریں شائع کیں کہ اس قتل کے پیچھے امریکہ اور افغانستان کا ہاتھ ہے۔

سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس پہلے سیاسی قتل کی سازش کو پکڑ لیا جاتا اور ذمے داروں کو سامنے لاکر عبرت ناک سزائیں دی جاتیں تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

لیاقت علی کا دنیا سے اٹھنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی ایک مذاق بن کے رہ گئی۔ جس پر کھٹپتلیاں لائی جاتیں اور گرائی جاتیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہہ ان کٹھپتلیوں کو لگانے، چلانے اور نکالنے کا اختیار، ایک فالج زدہ معذور شخص کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔

یہ کیسے ہوا کہ لیاقت علی خان کے بعد ایک فالج زدہ شخص پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ لیاقت علی کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے نتائج خطرناک ثابت ہوئے۔

لیاقت علی خان کی جگہ ایک متحرک سیاسی شخص کی ضرورت تھی جو متفقہ آئیں تشکیل دے کر ملکی معاملات سنبھالے۔ اس لیے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ 

گورنر جنرل کے پاس 1935 کے برطانوی آئین میں دیئے کافی اختیارات تھے لیکن وہ انہیں استعمال کم ہی کرتے تھے۔ اس لیے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کو بے زرر سمجھتے ہوئے 17 اکتوبر 1951 کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔

فالج کے مریض ملک غلام محمد بیوروکریٹ تھے، قیام پاکستان کی جدود سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس لیے عوامی امنگوں کو سمجھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس پر مزید یہ کہ فالج کے باعث ان کی گفتگو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں تھا۔ ان کی امریکی سیکریٹری ترجمہ کے فرائض انجام دیتی تھی۔

برطانوی ایکٹ کے تحت چلنے والا نو آزاد ملک اب ایک فالج زدہ معزور شخص کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ اس ایکٹ میں گورنر جنرل کے پاس کافی اختیارات تھے جن کا جائز اور نا جائز اختیار اس مفلوج شخص نے کھل کر کیا۔

ملک غلام محمد کے دور میں دو اہم واقعات ہوئے۔

ایک یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان بولنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں۔

اور دوسرا یہ کہ احمدیووں کے خلاف چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے لاہور میں مارشل کا نافذ کیا گیا، اور یہ ایک شہر کی سطح پر نافذ ہونے والا پاکستان کا پہلا مارشل لا تھا۔

اسی پر بس نہیں ملک غلام محمد نے اختیارت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا، خواجہ ناظم الدین نے ملکہ برطانیہ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے درخواست کی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی ملکہ نے یہ جمہوری درخواست مسترد کردی۔

ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم دین کی جگہ امریکہ سے امپورٹ کرکے محمد علی بوگرہ (امریکہ میں پاکستانی سفیر) کو وزیر اعظم نامزد کردیا۔ یوں قائد اعظم کے ساتھیوں اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کا صرف اٹھ سات سال میں اقتدار کے ایوانوں سے صفایا کردیا گیا۔

ملک غلام محمد نے 1954 میں دستور ساز اسمبلی کو بھی برطرف کردیا کیونکہ پاکستان کے پہلے آئین کا مسودہ تیار تھا اور جس میں گورنر جنرل کے اختیارات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں آرمی چیف جنرل ایوب خان کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔

ستم بلائے ستم یہ کہ اگلی کابینہ میں حاضر سروس جرنیل ایوب خاں کو وزیر دفاع بھی مقرر کردیا گیا۔ یوں اقتدار کے ایوانوں میں پہلی بار فوجی بوٹوں کی گونج سنائی دینے لگی۔

اس فالج زدہ شخص کے قبضے سے پاکستان کیسے آزاد ہوا اور جمہوریت اور آمریت پہلی بار کیسے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے اگلی قسط میں پڑھیے

پہلی قسط کے لیے یہاں کلک کریں

تبصرے