herait e ishq nhi shoq janon gosh nhi jigar muradabadi حیرت عشق نہیں شوق جنوں گوش نہیں
حیرت
عشق نہیں شوق جنوں گوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤمجھے ہوش نہیں
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میں گدا ساز ہوںمیں گدا فرموش نہیں
کہہ گئی کان میں آ کر تیرے دامن کی ہوا
صاحب ہوش وہی ہے کہ جیسے ہوش نہیں
کبھی ان مدھ بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہےمگر ہوش نہیں
مل کے جس دن سے گیا کوئی ایک بار جگر
مجھ کو یہ وہم ہےجیسے میرا آغوش نہیں
جگر مراد آبادی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں