آنے والا انقلاب آیا نہیں







آنے والا انقلاب آیا نہیں
کیا کوئی اہل کتاب آیا نہیں

اسم اعظم بھی پڑھا ہے بار بار
غار سے لیکن جواب آیا نہیں

ہو رہا ہے کچھ نہ کچھ زیر زمیں
کونپلیں پھوٹیں گلاب آیا نہیں

رات بھر پھر ہجر کا موسم رہا
جس کو آنا تھا وہ خواب آیا نہیں

خشک لب لوٹے ہیں کیوں صحرا نورد
راستے میں کیا سراب آیا نہیں

مجھ کو اک چشمک تھی سیل اشک سے
اس لیے میں زیر آب آیا نہیں

تبصرے